Sheikh ghamidi biography template

Ca si nguyen le quynh dung biography

روداد سفر

ہم نانگپال گئے تھے تو میں تیسری جماعت میں تھا۔ پانچویں تک مولوی نوراحمد صاحب سے پڑھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اُنھوں نے مجھے ’’شرح جامی‘‘ تک عربی اور ’’پندنامہ‘‘ شیخ عطار تک فارسی پڑھائی۔ پانچویں جماعت کے امتحانات ہونے کو تھے کہ والد کسی بات پر میاں صاحب سے ناراض ہوئے اور ملازمت چھوڑ کرواپس پاک پتن آگئے۔ مجھے بھی آنا پڑا، لہٰذا مولوی صاحب سے میری تعلیم بھی اِس کے ساتھ ہی منقطع ہو گئی۔ تاہم شوق ختم نہیں ہوا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’شوق در ہر دل کہ باشد رہبرے درکار نیست‘، میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ہی کسی استاد تک پہنچ جاتا اور اُس کی رہنمائی میں درس نظامی کی کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ نویں جماعت تک میں نے فنون کی تمام کتابیں ختم کر لیں۔ اب دسویں کا امتحان درپیش تھا، اِس لیے پوری توجہ اُس کی طرف مبذول ہو گئی اور عربی تعلیم کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا۔

نہ من براں گل عارض غزل سرایم و بس
کہ عندلیب تو از ہر طرف ہزارانند

اے تو مجموعۂ خوبی، بچہ نامت خوانم

اِن میں سے بعض بزرگ تدریس کے لیے بھی آمادہ ہو جاتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر صوفی ضیاء الحق صاحب سے میں نے درخواست کی تو اُنھوں نے ’’مقامات ہمدانی‘‘ اور مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف نے ’’دارمی‘‘ کا کچھ حصہ پڑھا دیا۔ مولانا اہل حدیث کے ایک جلیل القدر عالم اور ڈاکٹر صاحب عربی زبان و ادب کے ایک جید عالم اور محقق تھے۔ اُن کے والد مولانا اصغر علی روحی شبلی و فراہی کے استاد اور ’’حماسہ‘‘ اور ’’سبع معلقات‘‘ کے شارح ادیب الہند مولانا فیض الحسن سہارن پوری کے تلمیذ رشید تھے۔ ڈاکٹر صاحب زبان و ادب کی اِسی روایت کے امین تھے۔

میں گورنمنٹ کالج میں کم و بیش پانچ برس رہا۔ میرا معمول تھا کہ صبح گھر سے نکلتا، کالج کے اسباق میں شامل ہوتا، پھر شام تک کسی لائبریری میں بیٹھا رہتا یا لائبریری سے اٹھ کر اِن بزرگوں کی صحبت میں پہنچ جاتا تھا۔ نئی کتابوں کے لیے فیروزسنز اور یونائیٹڈ پبلشرز میں یہ سہولت تھی کہ آدمی جب تک چاہے پڑھتا رہے، دکان کے لوگ بالعموم کوئی مداخلت نہیں کرتے تھے۔ میں اِن دکانوں پر بھی جاتا اور گھنٹوں کتابیں دیکھتا رہتا تھا۔ اُس زمانے میں بعض کتابیں لکھنے کے منصوبے بنائے، کچھ لکھا بھی، لیکن یہ زیادہ تر منصوبے ہی رہے۔ شعر کہنے کا رجحان بچپن سے تھا۔ وہ اُس زمانے میں بھی کہے اور اُن میں سے کچھ فیروزسنز کے انگریزی ماہنامہ ’’پاکستان ریویو‘‘ کے ۱۹۶۸ء،۱۹۶۹ء کے شماروں اور بعض دوسرے مجلوں میں شائع بھی ہو گئے، مگر زیادہ توجہ پڑھنے کی طرف رہی۔ لہٰذا کالج کے شب وروز اِسی عیش میں گزر گئے:

اوقات ہماں بود کہ با یار بسررفت
باقی ہمہ بے حاصلی و بے خردی بود

یہ میرے لیے ایک نئے قرآن کی دریافت تھی۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے طریقے پر قرآن کا طالب علم بننا چاہتا ہوں۔ اپنی تعلیم کا کچھ پس منظر بتا کر پوچھا کہ اِس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟ مولانا نے مختلف علوم و فنون کی امہات کتب کی ایک لمبی فہرست بتائی جنھیں پڑھنے، سمجھنے اور دل و دماغ میں اتارنے کے لیے برسوں کی محنت چاہیے تھی۔ مولانا نے فرمایا: اِس طریقے سے پڑھنا چاہتے ہو تو لیڈری کے خیالات ذہن سے نکال کر علم و نظر اور فکر و تدبر کے لیے گوشہ گیر ہونا پڑے گا۔ یہ فیصلہ کرو کہ تمھارا سایہ بھی ساتھ نہ دے تو حق پر قائم رہو گے۔ ہمارے مدرسۂ علمی میں کوئی شخص اِس عزم و ارادہ کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔

کس نمی گویدم از منزل اول خبرے
صد بیاباں بہ گذشت و دگرے درپیش است

اِس زمانے میں اگر کچھ لکھا بھی تو کسی ضرورت کے تحت۔ بت کدۂ تصورات میں ’تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘ کی جو صورت پیدا ہو گئی تھی، اُس میں دوسروں سے کیا کہا جائے؟ یہ دور اِسی طرح گزر گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۹۰ء میں جا کر وہ زمین کہیں ہموار ہوئی، جہاں نئی تعمیر کے لیے نیو ڈالی جائے۔ زندگی کے چالیس سال پورے ہونے کو تھے۔ فکرو خیال میں بڑی حد تک وضوح پیدا ہوچکا تھا اور نقشۂ کار بھی واضح تھا۔ میں نے تصنیف و تالیف کا ایک پروگرام ترتیب دیا اور اِس کے مطابق کام کی ابتدا کر دی۔ پچھلے سترہ سال سے اِسی کے مطابق کام کر رہا ہوں۔ بہت کچھ ہو چکا اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہی تو یہ بھی ہو جائے گا۔ چند دن پہلے ’’میزان‘‘ پایۂ تکمیل کو پہنچی تو خیال ہوا کہ اِس موقع پر یہ داستان سنا دی جائے۔ اِسی تقریب سے اپنے کام کا نقشہ یہاں بیان کر رہا ہوں۔ یہ کتابیں ہیں جن میں سے کچھ لکھی جا چکی اور کچھ زیر تصنیف ہیں:

۱۔ البیان

قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر ہے۔

۲۔ میزان

اسلام کو میں نے جس طرح سمجھا ہے، یہ اُس کا بیان ہے۔

۳۔ برہان

یہ اُن مباحث کی تنقیح کے لیے خاص ہے، جہاں میرا نقطۂ نظر دوسرے علما سے مختلف ہے۔

۴۔ مقامات

پہلی دو کتابوں کے علاوہ جو کچھ لکھا ہے یا لکھنے کا ارادہ ہے، اُس کے منتخبات اِس کتاب میں جمع کرنا پیش نظر ہے۔

۵۔الاسلام

’’میزان‘‘ کا خلاصہ ہے۔

۶۔ علم النبی

۷۔ فقہ النبی

۸۔سیرۃ النبی

یہ تینوں کتابیں احادیث و آثار کی جمع و تدوین اور اُن کے متون کی تنقیح کے لیے ترتیب دینا چاہتا ہوں۔

۹۔ خیال وخامہ

شعر کہتا رہا ہوں، یہ اُن کا مجموعہ ہے۔

’’برہان‘‘، ’’مقامات‘‘ اور ’’خیال و خامہ‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔ اِن میں مضامین اور منظومات کا اضافہ، البتہ ہوتا رہتا ہے۔ ’’میزان‘‘، امید ہے کہ اِس سال کے آخر تک شائع ہو جائے گی۔ ’’البیان‘‘ میں سورۂ نساء تک پہنچا ہوں۔ اِس سے فارغ ہو گیا تو باقی عمر ان شاء اللہ حدیث کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گا۔ زندگی کی تمنا اگر ہے تو اب اِسی کے لیے ہے۔ ابوالکلام کا تصرف قبول کر لیا جائے تو زمانی یزدی کا یہ شعر ہر لحاظ سے حسب حال ہے:

حکایت از قد آں یار دل نواز کنیم
بایں فسانہ مگر عمر خود دراز کنیم